9. جن اماموں نے اونچی جگہوں پر خدمت کی تھی اُنہیں یروشلم میں رب کے حضور قربانیاں پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن وہ باقی اماموں کی طرح بےخمیری روٹی کے لئے مخصوص روٹی کھا سکتے تھے۔
10. بن ہنوم کی وادی کی قربان گاہ بنام توفت کو بھی بادشاہ نے ڈھا دیا تاکہ آئندہ کوئی بھی اپنے بیٹے یا بیٹی کو جلا کر مَلِک دیوتا کو قربان نہ کر سکے۔
11. گھوڑے کے جو مجسمے یہوداہ کے بادشاہوں نے سورج دیوتا کی تعظیم میں کھڑے کئے تھے اُنہیں بھی یوسیاہ نے گرا دیا اور اُن کے رتھوں کو جلا دیا۔ یہ گھوڑے رب کے گھر کے صحن میں دروازے کے ساتھ کھڑے تھے، وہاں جہاں درباری افسر بنام ناتن مَلِک کا کمرا تھا۔
12. آخز بادشاہ نے اپنی چھت پر ایک کمرا بنایا تھا جس کی چھت پر بھی مختلف بادشاہوں کی بنی ہوئی قربان گاہیں تھیں۔ اب یوسیاہ نے اِن کو بھی ڈھا دیا اور اُن دو قربان گاہوں کو بھی جو منسّی نے رب کے گھر کے دو صحنوں میں کھڑی کی تھیں۔ اِن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُس نے ملبہ وادیٔ قدرون میں پھینک دیا۔
13. نیز، بادشاہ نے یروشلم کے مشرق میں اونچی جگہوں کے مندروں کی بےحرمتی کی۔ یہ مندر ہلاکت کے پہاڑ کے جنوب میں تھے، اور سلیمان بادشاہ نے اُنہیں تعمیر کیا تھا۔ اُس نے اُنہیں صیدا کی شرم ناک دیوی عستارات، موآب کے مکروہ دیوتا کموس اور عمون کے قابلِ گھن دیوتا ملکوم کے لئے بنایا تھا۔
14. یوسیاہ نے دیوتاؤں کے لئے مخصوص کئے گئے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے یسیرت دیوی کے کھمبے کٹوا دیئے اور مقامات پر انسانی ہڈیاں بکھیر کر اُن کی بےحرمتی کی۔
17. پھر یوسیاہ کو ایک اَور قبر نظر آئی۔ اُس نے شہر کے باشندوں سے پوچھا، ”یہ کس کی قبر ہے؟“ اُنہوں نے جواب دیا، ”یہ یہوداہ کے اُس مردِ خدا کی قبر ہے جس نے بیت ایل کی قربان گاہ کے بارے میں عین وہ پیش گوئی کی تھی جو آج آپ کے وسیلے سے پوری ہوئی ہے۔“
18. یہ سن کر بادشاہ نے حکم دیا، ”اِسے چھوڑ دو! کوئی بھی اِس کی ہڈیوں کو نہ چھیڑے۔“ چنانچہ اُس کی اور اُس نبی کی ہڈیاں بچ گئیں جو سامریہ سے اُس سے ملنے آیا اور بعد میں اُس کی قبر میں دفنایا گیا تھا۔
19. جس طرح یوسیاہ نے بیت ایل کے مندر کو تباہ کیا اُسی طرح اُس نے سامریہ کے تمام شہروں کے مندروں کے ساتھ کیا۔ اُنہیں اونچی جگہوں پر بنا کر اسرائیل کے بادشاہوں نے رب کو طیش دلایا تھا۔
20. اِن مندروں کے پجاریوں کو اُس نے اُن کی اپنی اپنی قربان گاہوں پر سزائے موت دی اور پھر انسانی ہڈیاں اُن پر جلا کر اُن کی بےحرمتی کی۔ اِس کے بعد وہ یروشلم لوٹ گیا۔
21. یروشلم میں آ کر بادشاہ نے حکم دیا، ”پوری قوم رب اپنے خدا کی تعظیم میں فسح کی عید منائے، جس طرح عہد کی کتاب میں فرمایا گیا ہے۔“
22. اُس زمانے سے لے کر جب قاضی اسرائیل کی راہنمائی کرتے تھے یوسیاہ کے دنوں تک فسح کی عید اِس طرح نہیں منائی گئی تھی۔ اسرائیل اور یہوداہ کے بادشاہوں کے ایام میں بھی ایسی عید نہیں منائی گئی تھی۔