12. تب وہ آ کر صیون کی بلندی پر خوشی کے نعرے لگائیں گے، اُن کے چہرے رب کی برکتوں کو دیکھ کر چمک اُٹھیں گے۔ کیونکہ اُس وقت وہ اُنہیں اناج، نئی مَے، زیتون کے تیل اور جوان بھیڑبکریوں اور گائےبَیلوں کی کثرت سے نوازے گا۔ اُن کی جان سیراب باغ کی طرح سرسبز ہو گی، اور اُن کی نڈھال حالت سنبھل جائے گی۔
13. پھر کنواریاں خوشی کے مارے لوک ناچ ناچیں گی، جوان اور بزرگ آدمی بھی اُس میں حصہ لیں گے۔ یوں مَیں اُن کا ماتم خوشی میں بدل دوں گا، مَیں اُن کے دلوں سے غم نکال کر اُنہیں اپنی تسلی اور شادمانی سے بھر دوں گا۔“
14. رب فرماتا ہے، ”مَیں اماموں کی جان کو تر و تازہ کروں گا، اور میری قوم میری برکتوں سے سیر ہو جائے گی۔“
15. رب فرماتا ہے، ”رامہ میں شور مچ گیا ہے، رونے پیٹنے اور شدید ماتم کی آوازیں۔ راخل اپنے بچوں کے لئے رو رہی ہے اور تسلی قبول نہیں کر رہی، کیونکہ وہ ہلاک ہو گئے ہیں۔“
16. لیکن رب فرماتا ہے، ”رونے اور آنسو بہانے سے باز آ، کیونکہ تجھے اپنی محنت کا اجر ملے گا۔ یہ رب کا وعدہ ہے کہ وہ دشمن کے ملک سے لوٹ آئیں گے۔
17. تیرا مستقبل پُراُمید ہو گا، کیونکہ تیرے بچے اپنے وطن میں واپس آئیں گے۔“ یہ رب کا فرمان ہے۔
18. ”اسرائیل کی گریہ و زاری مجھ تک پہنچ گئی ہے۔ کیونکہ وہ کہتا ہے، ’ہائے، تُو نے میری سخت تادیب کی ہے۔ میری یوں تربیت ہوئی ہے جس طرح بچھڑے کی ہوتی ہے جب اُس کی گردن پر پہلی بار جوا رکھا جاتا ہے۔ اے رب، مجھے واپس لا تاکہ مَیں واپس آؤں، کیونکہ تُو ہی رب میرا خدا ہے۔
19. میرے واپس آنے پر مجھے ندامت محسوس ہوئی، اور سمجھ آنے پر مَیں اپنا سینہ پیٹنے لگا۔ مجھے شرمندگی اور رُسوائی کا شدید احساس ہو رہا ہے، کیونکہ اب مَیں اپنی جوانی کے شرم ناک پھل کی فصل کاٹ رہا ہوں۔‘
20. لیکن رب فرماتا ہے کہ اسرائیل میرا قیمتی بیٹا، میرا لاڈلا ہے۔ گو مَیں بار بار اُس کے خلاف باتیں کرتا ہوں توبھی اُسے یاد کرتا رہتا ہوں۔ اِس لئے میرا دل اُس کے لئے تڑپتا ہے، اور لازم ہے کہ مَیں اُس پر ترس کھاؤں۔
21. اے میری قوم، ایسے نشان کھڑے کر جن سے لوگوں کو صحیح راستے کا پتا چلے! اُس پکی سڑک پر دھیان دے جس پر تُو نے سفر کیا ہے۔ اے کنواری اسرائیل، واپس آ، اپنے اِن شہروں میں لوٹ آ!