17. پھر وہ ہوش میں آیا۔ وہ کہنے لگا، ’میرے باپ کے کتنے مزدوروں کو کثرت سے کھانا ملتا ہے جبکہ مَیں یہاں بھوکا مر رہا ہوں۔
18. مَیں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس واپس چلا جاؤں گا اور اُس سے کہوں گا، ’اے باپ، مَیں نے آسمان کا اور آپ کا گناہ کیا ہے۔
19. اب مَیں اِس لائق نہیں رہا کہ آپ کا بیٹا کہلاؤں۔ مہربانی کر کے مجھے اپنے مزدوروں میں رکھ لیں۔‘
20. پھر وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس واپس چلا گیا۔لیکن وہ گھر سے ابھی دُور ہی تھا کہ اُس کے باپ نے اُسے دیکھ لیا۔ اُسے ترس آیا اور وہ بھاگ کر بیٹے کے پاس آیا اور گلے لگا کر اُسے بوسہ دیا۔
21. بیٹے نے کہا، ’اے باپ، مَیں نے آسمان کا اور آپ کا گناہ کیا ہے۔ اب مَیں اِس لائق نہیں رہا کہ آپ کا بیٹا کہلاؤں۔‘
22. لیکن باپ نے اپنے نوکروں کو بُلایا اور کہا، ’جلدی کرو، بہترین سوٹ لا کر اِسے پہناؤ۔ اِس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتے پہنا دو۔
23. پھر موٹا تازہ بچھڑا لا کر اُسے ذبح کرو تاکہ ہم کھائیں اور خوشی منائیں،
24. کیونکہ یہ میرا بیٹا مُردہ تھا اب زندہ ہو گیا ہے، گم ہو گیا تھا اب مل گیا ہے۔‘ اِس پر وہ خوشی منانے لگے۔
25. اِس دوران باپ کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ اب وہ گھر لوٹا۔ جب وہ گھر کے قریب پہنچا تو اندر سے موسیقی اور ناچنے کی آوازیں سنائی دیں۔
26. اُس نے کسی نوکر کو بُلا کر پوچھا، ’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘
27. نوکر نے جواب دیا، ’آپ کا بھائی آ گیا ہے اور آپ کے باپ نے موٹا تازہ بچھڑا ذبح کروایا ہے، کیونکہ اُسے اپنا بیٹا صحیح سلامت واپس مل گیا ہے۔‘
28. یہ سن کر بڑا بیٹا غصے ہوا اور اندر جانے سے انکار کر دیا۔ پھر باپ گھر سے نکل کر اُسے سمجھانے لگا۔