3. اُس کے لِئے دربان دروازہ کھول دیتا ہے اور بھیڑیں اُس کی آواز سُنتی ہیں اور وہ اپنی بھیڑوں کو نام بنام بُلا کر باہر لے جاتا ہے۔
4. جب وہ اپنی سب بھیڑوں کو باہر نِکال چُکتا ہے تو اُن کے آگے آگے چلتا ہے اور بھیڑیں اُس کے پِیچھے پِیچھے ہو لیتی ہیں کیونکہ وہ اُس کی آواز پہچانتی ہیں۔
5. مگر وہ غَیر شخص کے پِیچھے نہ جائیں گی بلکہ اُس سے بھاگیں گی کیونکہ غَیروں کی آواز نہیں پہچانتِیں۔
6. یِسُو ع نے اُن سے یہ تمثِیل کہی لیکن وہ نہ سمجھے کہ یہ کیا باتیں ہیں جو ہم سے کہتا ہے۔
7. پس یِسُو ع نے اُن سے پِھر کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ بھیڑوں کا دروازہ مَیں ہُوں۔
8. جِتنے مُجھ سے پہلے آئے سب چور اور ڈاکُو ہیں مگر بھیڑوں نے اُن کی نہ سُنی۔
9. دروازہ مَیں ہُوں ۔ اگر کوئی مُجھ سے داخِل ہو تو نجات پائے گا اور اندر باہر آیا جایا کرے گا اور چارا پائے گا۔