9. اَے دشتی حَیوانو تُم سب کے سب کھانے کو آؤ! ہاں اَے جنگل کے سب درِندو۔
10. اُس کے نِگہبان اندھے ہیں ۔ وہ سب جاہِل ہیں ۔ وہ سب گُونگے کُتّے ہیں جو بَھونک نہیں سکتے ۔ وہ خواب دیکھنے والے ہیں جو پڑے رہتے ہیں اور اُونگھتے رہنا پسند کرتے ہیں۔
11. اور وہ لالچی کُتّے ہیں جو کبھی سیر نہیں ہوتے ۔ وہ نادان چرواہے ہیں ۔ وہ سب اپنی اپنی راہ کو پِھر گئے۔ ہر ایک ہر طرف سے اپنا ہی نفع ڈُھونڈتا ہے۔
12. ہر ایک کہتا ہے تُم آؤ ۔ مَیں شراب لاؤُں گا اور ہم خُوب نشہ میں چُور ہوں گے اور کل بھی آج ہی کی طرح ہوگا بلکہ اِس سے بُہت بِہتر۔